ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ صحت مند، تندرست اور چست رہے۔ بچپن کی صحت ہی دراصل پوری زندگی کی صحت کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ وہ قیمتی وقت ہوتا ہے جب بچے کے جسم اور دماغ کی نشوونما تیزی سے ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر ہم ان کی صحت کی بنیادوں کو مضبوط بنا دیں تو یہ انھیں زندگی بھر کے لیے صحت مند رہنے کا تحفہ دے سکتا ہے۔ اس بلاگ میں ہم بچوں کی صحت سے متعلق تمام اہم پہلوؤں پر تفصیل سے بات کریں گے۔
بچوں کی نشوونما کے اہم مراحل
بچے کی نشوونما ایک مسلسل عمل ہے جو پیدائش سے لے کر جوانی تک جاری رہتا ہے۔ تاہم، کچھ مراحل خاصے اہم ہوتے ہیں جہاں نشوونما تیزی سے ہوتی ہے۔
پیدائش سے ایک سال تک (شیر خوارگی)
یہ دور بچے کی زندگی کا سب سے تیز رفتار نشوونما کا دور ہوتا ہے۔ اس دوران:
جسمانی نشوونما: بچہ اپنے پیدائشی وزن سے تقریباً تین گنا ہو جاتا ہے۔
دماغی نشوونما: دماغ کا سائز تیزی سے بڑھتا ہے، جو پیدائش کے وقت کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہو جاتا ہے۔
حرکاتی مہارتیں: بچہ گردن اٹھانا، بیٹھنا، رینگنا، اور بعض cases میں چلنا بھی سیکھ لیتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ فاروق، ماہر اطفال، کہتی ہیں: "پہلے سال میں بچے کی نشوونما پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔ باقاعدہ چیک اپ، مناسب غذائیت اور محبت بھرا ماحول بچے کی صحت مند نشوونما کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔"
ایک سے تین سال (چھوٹے بچپن کا دور)
اس دور میں بچہ مزید آزاد ہوتا جا رہا ہوتا ہے:
زبان کی مہارت: الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہے اور وہ جملے بنانا شروع کر دیتا ہے۔
سماجی جذباتی نشوونما: دوسرے بچوں کے ساتھ بات چیت اور کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔
بہتر حرکتی مہارتیں: دوڑنا، چڑھنا، سیڑھیاں چڑھنا اور پزلز حل کرنا سیکھتا ہے۔
تین سے پانچ سال (پری اسکول کا دور)
یہ دور بچے کی شخصیت کی تشکیل میں اہم ہوتا ہے:
تخلیقی سوچ: تصوراتی کھیل، ڈرائنگ اور کہانیاں سنانا پسند کرتا ہے۔
سماجی مہارتیں: دوست بنانا سیکھتا ہے اور جذبات کو بیان کرنا سیکھتا ہے۔
پیشگی تعلیمی مہارتیں: حروف، اعداد اور رنگ پہچاننا شروع کر دیتا ہے۔
چھ سے بارہ سال (اسکول کا ابتدائی دور)
اس دور میں بچہ تعلیمی اور سماجی طور پر زیادہ مستقل ہوتا ہے:
تعلیمی مہارتیں: پڑھنا، لکھنا اور حساب لگانا سیکھتا ہے۔
دوستی کے تعلقات: گہری دوستیاں بنتی ہیں اور سماجی گروپوں میں شامل ہوتا ہے۔
جسمانی نشوونما: مستقل رفتار سے بڑھتا ہے، ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔
ویکسینیشن کی اہمیت اور جدید معلومات
ویکسینیشن بچوں کو متعدی بیماریوں سے بچانے کا سبہ مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی بچے کی حفاظت کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔
ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟
ویکسینیشن دراصل بچے کے مدافعتی نظام کو بیماریوں سے لڑنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ جب بچے کو ویکسین دی جاتی ہے، تو اس کا جسم اس بیماری کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے، جس سے اگر مستقبل میں وہ بیماری حملہ کرے تو بچہ اس سے لڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر عمران الحق، ویکسینولوجسٹ، بتاتے ہیں: "ویکسینیشن کی بدولت دنیا سے چیچک جیسی مہلک بیماری کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ پولیو، خسرہ، کالی کھانسی جیسی بیماریوں پر قابو پانے میں ویکسینز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔"
ویکسینیشن کا شیڈول
پاکستان میں بچوں کے لیے قومی ویکسینیشن پروگرام درج ذیل ویکسینز فراہم کرتا ہے:
پیدائش کے وقت: بی سی جی، ہیپاٹائٹس بی، او پی وی
چھ ہفتے: پینٹاویلنٹ، او پی وی، پی سی وی
دس ہفتے: پینٹاویلنٹ، او پی وی
چودہ ہفتے: پینٹاویلنٹ، او پی وی، پی سی وی
نو مہینے: خسرہ
پندرہ مہینے: ایم ایم آر
ویکسینیشن کے بارے میں عام غلط فہمیاں
- غلط فہمی: ویکسینز آٹزم کا سبب بنتی ہیں۔حقیقت: متعدد وسیع مطالعات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ویکسینز اور آٹزم کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔
- غلط فہمی: ویکسینز میں خطرناک کیمیکلز ہوتے ہیں۔حقیقت: ویکسینز میں استعمال ہونے والے تمام اجزاء محفوظ مقدار میں ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کی جانچ پڑتال کی جا چکی ہے۔
- غلط فہمی: قدرتی طریقے سے بیماری لگ کر قوت مدافعت بڑھانا بہتر ہے۔حقیقت: قدرتی طریقے سے بیماری لگنے پر سنگین پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں، جبکہ ویکسین محفوظ طریقے سے قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔
بچوں میں الرجی اور اس سے بچاؤ
الرجی آج کل بچوں میں ایک عام مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ الرجی اس وقت ہوتی ہے جب مدافعتی نظام کسی غیر خطرناک مادے کو خطرہ سمجھ کر اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
الرجی کی عام اقسام
خوراک کی الرجی: مونگ پھلی، دودھ، انڈے، مچھلی، گری دار میوے، سویا اور گندم سے الرجی سب سے عام ہیں۔
ماحولیاتی الرجی: دھول، پولن، پالتو جانوروں کی خشریں، اور سڑی ہوئی لکڑی سے الرجی۔
دوا کی الرجی: پینسلن اور دیگر ادویات سے الرجی۔
کیڑے مکوڑوں کے ڈنگ سے الرجی: مکھیوں، مچھروں اور چیونٹیوں کے ڈنگ سے ہونے والی الرجی۔
الرجی کی علامات
الرجی کی علامات ہلکی سے لے کر شدید ہو سکتی ہیں:
جلد کی علامات: خارش، سرخی، چھالے، ایگزیما
سانس کی علامات: چھینکیں، ناک بہنا، کھانسی، سانس لینے میں دشواری
ہاضمے کی علامات: متلی، قے، اسہال، پیٹ میں درد
شدید الرجک رد عمل (anaphylaxis): یہ ایک طبی ایمرجنسی ہے جس میں سانس لینے میں دشواری، حلق میں سوجن، تیز نبض، اور چکر آنا شامل ہیں۔
الرجی سے بچاؤ کے طریقے
الرجن سے پرہیز: سب سے مؤثر طریقہ الرجی پیدا کرنے والے مادے سے بچنا ہے۔
گھر کو صاف رکھیں: دھول مٹی سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ صفائی کریں۔
ہوا کی کوالٹی بہتر بنائیں: ایئر پوریفائر کا استعمال کریں اور سگریٹ کے دھوئیں سے بچائیں۔
خورائی الرجی کے لیے: غذا کے اجزاء کو احتیاط سے پڑھیں اور ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے وقت الرجی کے بارے میں معلومات لیں۔
دماغی نشوونما کے لیے غذائیں
بچے کے دماغ کی نشوونما کے لیے غذائیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کچھ غذائیں دماغی صحت کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہیں۔
دماغی نشوونما کے لیے ضروری غذائی اجزاء
- اوميگا-3 فیٹی ایسڈ: یہ دماغی خلیوں کی تعمیر اور کام کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ذرائع: مچھلی (خاص طور پر سالمن)، اخروٹ، السی کے بیج، چیا کے بیج
- آئرن: آکسیجن کو دماغ تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ذرائع: سرخ گوشت، پالک، دالیں، انڈے
- آیوڈین: تھائرائڈ ہارمون کے production کے لیے ضروری ہے جو دماغی نشوونما کو کنٹرول کرتا ہے۔ذرائع: آیوڈین والا نمک، سمندری غذا، ڈیری مصنوعات
- زِنک: یادداشت اور سیکھنے کے عمل میں مدد دیتا ہے۔ذرائع: گوشت، دالیں، تخوں کے بیج، دودھ
- پروٹین: دماغی کیمیکلز اور خلیوں کی تعمیر کے لیے ضروری۔ذرائع: انڈے، دودھ، دالیں، گوشت، مچھلی
دماغی نشوونما کے لیے بہترین غذائیں
انڈے: پروٹین، آئرن، وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور۔
دلیا: توانائی کا مستقل ذریعہ جو سیکھنے کے عمل میں مدد دیتا ہے۔
بیری: اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور جو دماغی خلیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
دودھ، دہی اور پنیر: پروٹین، کیلشیم اور وٹامن ڈی کا اچھا ذریعہ۔
مچھلی: اومیگا-3 فیٹی ایسڈز کا بہترین ذریعہ۔
نقصان دہ غذائیں
بچے کے دماغی نشوونما کے لیے مندرجہ ذیل غذائیں نقصان دہ ہو سکتی ہیں:
بہت زیادہ چینی: توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر کرتی ہے۔
پروسیسڈ فوڈ: مصنوعی رنگ، ذائقے اور preservatives پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ٹرانس فیٹ: دماغی خلیوں کی نشوونما کو متاثر کر سکتے ہیں۔
بچوں کے لیے محفوظ ماحول کیسے بنائیں
بچوں کی صحت مند نشوونما کے لیے محفوظ ماحول نہایت ضروری ہے۔ یہ ماحول نہ صرف جسمانی بلکہ جذباتی اور نفسیاتی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
گھر میں محفوظ ماحول
حفاظتی اقدامات:
تیز کونوں والے فرنیچر کو محفوظ بنائیں
درازوں اور الماریوں کو لاک کریں
سیڑھیوں پر گیٹ لگائیں
بجلی کے پلگ کو ڈھانپیں
پانی کے برتنوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں
زہریلی چیزوں سے بچاؤ:
ادویات، صفائی کے مواد اور کیڑے مار ادویات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں
زہریلے پودوں کو گھر سے دور رکھیں
آگ سے بچاؤ:
ماچس اور لائٹر بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں
کچن میں کام کرتے وقت بچوں پر نظر رکھیں
گھر میں دھوئیں کے الارم لگائیں
باہر کا محفوظ ماحول
کھیل کے میدان میں حفاظت:
بچوں کی نگرانی کریں
حفاظتی سامان (ہیلمٹ، ناک اور منہ کی حفاظت) پہنائیں
محفوظ سامان والے کھیل کے میدان کا انتخاب کریں
ٹریفک میں حفاظت:
بچوں کو ٹریفک کے قواعد سکھائیں
کار میں بچوں کے لیے مخصوص سیٹ کا استعمال کریں
سڑک پار کرتے وقت بچوں کا ہاتھ پکڑیں
جذباتی طور پر محفوظ ماحول
جذباتی تحفظ جسمانی تحفظ ہی کی طرح اہم ہے:
محبت اور قبولیت کا ماحول: بچے کو یہ احساس دلائیں کہ آپ اسے بلا شرط محبت کرتے ہیں۔
بات چیت کے دروازے کھلے رکھیں: بچے کو ہر بات کھل کر بتانے کی ترغیب دیں۔
مسلسل حدود کا تعین: بچے کو واضح حدود کا علم ہونا چاہیے۔
مثبت نظم و ضبط: سزا کے بجائے مثبت reinforcement پر توجہ دیں۔
والدین کے عملی مسائل کے حل
والدین کو بچوں کی پرورش کے دوران مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ عام مسائل اور ان کے حل پیش ہیں:
مسئلہ: بچہ صحت مند غذا نہیں کھاتا
حل:
چھوٹے حصوں میں کھانا پیش کریں
کھانے کو دلچسپ شکلوں میں پیش کریں
بچے کو کھانا تیار کرنے میں شامل کریں
نئے کھانے بار بار پیش کریں، ہار نہ مانیں
خود بھی صحت مند غذائیں کھا کر اچھی مثال قائم کریں
مسئلہ: بچہ مناسب نیند نہیں لیتا
حل:
نیند کا باقاعدہ شیڈول بنائیں
سونے سے پہلے والی روٹین قائم کریں (کہانی پڑھنا، نہانا)
سونے کے کمرے کو آرام دہ بنائیں (ٹھنڈا، تاریک اور خاموش)
سونے سے پہلے اسکرین ٹائم کو محدود کریں
مسئلہ: بچہ ویکسین یا ڈاکٹر کے پاس جانے سے ڈرتا ہے
حل:
ڈاکٹر کے کردار کے بارے میں کھیل کے ذریعے سکھائیں
ویکسین کے بارے میں سچائی سے بتائیں لیکن ڈراؤنی باتوں سے پرہیز کریں
ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد بچے کو کوئی انعام دیں
ڈاکٹر سے cooperation کے لیے پہلے سے بات کر لیں
مسئلہ: بچہ موبائل فون اور ٹیبلیٹ پر زیادہ وقت گزارتا ہے
حل:
اسکرین ٹائم کی واضح حدود مقرر کریں
اسکرین فری زونز بنائیں (جیسے کھانے کی میز، خواب گاہ)
متبادل سرگرمیاں پیش کریں (کھیل، کتابیں، باہر کی سرگرمیاں)
خود بھی اسکرین کے استعمال میں اعتدال برتیں
قارئین کے سوالوں کے جوابات
سوال: میرے بچے کی عمر 2 سال ہے اور وہ ابھی تک پوری طرح بات نہیں کرتا۔ کیا میں فکر کروں؟
جواب: ہر بچے کی زبان کی نشوونما کا اپنا شیڈول ہوتا ہے۔ تاہم، اگر آپ کے بچے نے 2 سال کی عمر میں 50 سے کم الفاظ نہ سیکھے ہوں یا دو لفظوں کے جملے نہ بنا رہا ہو تو آپ کو ماہر اطفال سے مشورہ لینا چاہیے۔ زیادہ تر cases میں یہ تاخیر معمولی ہوتی ہے لیکن پیشہ ورانہ رائے لینا بہتر ہوتا ہے۔
سوال: کیا بچوں کو ویگن غذا دے سکتے ہیں؟
جواب: ہاں، بچوں کو ویگن غذا دی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے بہت محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو یقینی بنانا ہوگا کہ بچے کو پروٹین، آئرن، کیلشیم، وٹامن B12، وٹامن ڈی اور اومیگا-3 فیٹی ایسڈز کی مناسب مقدار مل رہی ہے۔ اس کے لیے غذائی ماہر یا ماہر اطفال سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
سوال: بچے کو بخار ہونے پر میں کب ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں؟
جواب: درج ذیل صورتوں میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں:
3 ماہ سے کم عمر کے بچے کو بخار ہو
بخار 104°F (40°C) سے زیادہ ہو
بخار 24 گھنٹے سے زیادہ رہے (2 سال سے کم عمر کے بچوں میں)
بخار 72 گھنٹے سے زیادہ رہے (2 سال سے زیادہ عمر کے بچوں میں)
بخار کے ساتھ جلد پر دانے، گردن میں اکڑاہٹ، شدید سر درد، یا پانی کی کمی کی علامات ہوں
سوال: بچے کو کس عمر میں دانت صاف کرنا شروع کر دینا چاہیے؟
جواب: پہلا دانت نکلتے ہی آپ بچے کے دانت صاف کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ شروع میں صاف، نم کپڑے یا نرم برش سے دانت صاف کریں۔ فلورائیڈ والا ٹوتھ پیسٹ (چاول کے دانے کے برابر) استعمال کریں۔ 3 سال کی عمر تک، مٹر کے دانے کے برابر ٹوتھ پیسٹ استعمال کریں۔
نتیجہ
بچوں کی صحت کی مضبوط بنیادیں رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، لیکن اس کے لیے مستقل مزاجی، علم اور محبت درکار ہوتی ہے۔ بچوں کی نشوونما کے اہم مراحل کو سمجھنا، ویکسینیشن کو ترجیح دینا، الرجی سے بچاؤ، دماغی نشوونما کے لیے صحت مند غذائیں فراہم کرنا، اور محفوظ ماحول بنانا - یہ سب وہ اقدامات ہیں جو آپ کے بچے کو صحت مند مستقبل دے سکتے ہیں۔
یاد رکھیں، ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اور اس کی اپنی رفتار سے نشوونما ہوتی ہے۔ اپنے بچے کی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں، اس کی کامیابیوں کا جشن منائیں، اور مشکلات میں اس کا ساتھ دیں۔ اگر آپ کو کسی بھی معاملے میں شک ہو تو ہمیشہ ماہرین سے رجوع کریں۔
آپ کے بچے کی صحت اور خوشی ہی آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
سوالات
نوزائیدہ: 14-17 گھنٹے
4-12 ماہ: 12-16 گھنٹے
1-2 سال: 11-14 گھنٹے
3-5 سال: 10-13 گھنٹے